Wednesday, May 28, 2025

فلسفہ

 

میرے خیال میں لفظ “فلسفہ” سے میرا پہلا واسطہ حسینہ معین کے ڈرامہ “ان کہی” میں پڑا تھا۔ جس کے ایک سین میں بدر خلیل کی دوست سلیم ناصر سے پوچھتی ہے، “فلسفہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے”، تو سلیم ناصر جس نے اپنے پڑھاکو بھانجے جبران سے فلسفہ کی کچھ لائنیں رٹی ہوئی تھیں بولنے لگتا ہے لیکن وہ خاتون کاؤنٹر سوالات کرکے سلیم ناصر کو گڑبڑا دیتی ہیں اور سلیم ناصر زِچ ہو کر کہتا ہے مجھے نہیں آتا یہ فلسفہ ولسفہ۔ اُس کے بعد شاید زندگی بھر فلسفہ کا تزکرہ قابلِ لائق نہیں ہوا۔ ہاں سُقراط، بُقراط، اور ارسطو کے نام گاہے بگاہے سنتا رہا۔ ہمارے زمانہ طالبِ علمی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جو اچھے اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں وہ سائنس پڑھتے ہیں اُس کے بعد لوگ کامرس میں جاتے ہیں اور جو سب سے نالائق اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں وہ آرٹس میں جاتے ہیں۔ فلسفہ کا کوئی تزکرہ ہی نہیں تھا۔

خیر حال ہی میں پرویز ہود بھائی کی زبانی یہ شکایت سُنی کہ پاکستان میں طلبا کو فلسفہ نہیں پڑھایا جاتا۔ جس کی وجہ سے پاکستانیوں میں critical thinking نہیں جنم لیتی۔ اور پاکستانی معاشرہ میں سوال پوچھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یوٹیوب پر ایک لڑکے سید مُزمّل شاہ کو سُننے کا موقع ملا۔ اِس نے اپنی گفتگو میں فلسفہ کا اتنا حوالہ دیا کہ میں اس طرف توجّہ دینے پر مجبور ہوگیا۔ اُس میں بھی اُس نے ایک فلسفی نطشے کا بہت تزکرہ کیا۔میں جب پچھلے سال پاکستان گیا تو فلسفہ کے اوپر نطشے کی کافی کتابیں(انگریزی میں) اور غزالی کی “تہافتہ الفلاسفہ (اُردو میں)، Will Durant کی کتاب “The history of Civilization” کا اُردو ترجمہ کی تین جلدیں( اس کتاب کی انگریزی میں کُل گیارہ جلدیں ہیں جن میں سے 4 جلدوں کا اُردو میں ترجمہ ہوچکا ہے جن میں سے تین میرے پاس ہیں اور چوتھی میری مامی آتے ہوئے لے آئی ہیں)

لیکن اُردو میں فلسفہ کی کتابیں پڑھنا بہت مُشکل کام ہے۔ اصطلاحات کو سمجھنا بہت مُشکل ہے۔ میں نے اب تک جو کچھ پڑھا ہے اُس کا نچوڑ کچھ یہ ہے: خلافت کا مرکز جب بغداد منتقل ہوا اور خلیفہ کے دربار میں ایرانیوں کا اثر و نفوز بڑھا تو عبّاسی خلفاء میں علم کی طلب بڑھی۔ اور یونان سے فلسفہ کی کتابیں منگوائیں گئیں اور عربی میں اُن کے تراجم کیے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے فلسفہ میں دلچسپی لینی شروع کی اور ابِنِ سینا اور الفارابی دو ایسے فلسفی تھے جو ارسطو کی سوچ سے بہت متاثر تھے۔ غزالی جو خود بھی فلسفی تھے اِن دونوں کے کچھ فلسفیانہ خیالات کے خلاف تھے۔ اُنھوں نے ان دونوں کی اور کچھ اور فلسفیوں کی کچھ فکروں کی مخالفت کی۔ اپنی کتاب تہافتہ الفلاسفہ میں غزالی نے فلسفیوں کے 20 کے قریب نظریات پر تنقید کی ہے جن میں سے 17 کو اُنھوں نے دین میں اضافہ قُرار دیا جبکہ 3 نظریات کے ماننے والوں کو اُنھوں نے کافر اور واجِبُ القتل قرار دیا۔ 

اِبنِ رُشد نے غزالی کی کتاب کا تفصیلی جواب دیا ہے۔ لیکن غزالی کی کتاب پہلے مذہبی حلقوں میں مشہور ہوئی پھر عوام میں پھر یہ حکومتی پالیسی کا حصہ بن گئی۔ نتیجتاً free thinking کی مسلمان معاشرے میں حوصلہ شکنی ہوئی۔ چونکہ کچھ فلسفی، ریاضی کی مدد سے بھی اپنے نظریات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے جس کی غزالی نے مخالفت کی تھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ریاضی کے مضمون میں بھی مسلمانوں کی دلچسپی ختم ہوتی چلی گئی۔

تہافتہ الفلاسفہ کو اُردو میں پڑھنا کافی مُشکل ثابت ہو رہا تھا اس لیے اس کتاب کے انگریزی ترجمہ کی تلاش شروع کی جو کچھ کوششوں کے بعد آن لائن مل گیا۔
یہ ترجمہ مائیکل ای مارمورا نے کیا ہے۔ مائیکل ای مارمورا یروشلم میں 11 نومبر 1929 کو پیدا ہوئے۔ 1953 میں اُنھوں نے وسکونسن یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ایم اے اور پی ایچ ڈی دونوں حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹی آف مشی گن چلے گئے۔ وہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں پروفیسر ایمریٹس رہے جہاں انہوں نے 1959 سے 1995 تک پڑھایا اور جہاں انہوں نے دو مرتبہ ڈیپارٹمنٹ آف  مڈل ایسٹ اور اسلامی علوم کی صدارت کی۔مائیکل ای مارمورا نے کئی اور عربی کتابوں کے انگریزی میں ترجمے کیے ہیں۔ اس ترجمے کو برگھم ینگ یونیورسٹی پریس، Utah نے چھاپا ہے۔ 

میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں کُھلے مباحثوں کی اجازت دی جائے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ مختلف فلسفیانہ سوچ رکھنے والے اپنی اپنی فکر کو فروغ دینے کے لیے یوٹیوب وڈیو بنا رہے ہیں۔ جہاں جہاں ان لوگوں کے خیالات ٹکرانے لگتے ہیں یہ اُس نکتہ کو لے کر ایک دوسرے کے خلاف وڈیو بنانے لگ جاتے ہیں۔ نتیجتاً پولرائیزیشن بڑھ رہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایک بڑا آڈیٹوریم ہو جس میں مختلف فلسفیانہ خیالات رکھنے والے لوگوں کو بلایا جائے۔ اُن کو سُنا جائے۔ پروگرام کو لائیو اسٹریم کیا جائے۔ تاکہ پاکستان میں لوگ فلسفہ میں دلچسپی لیں اور پاکستانیوں کی critical thinking کے سفر کا آغاز ہو۔

Tuesday, December 22, 2015

بلدیاتی ادارے (میرا مشاہدہ)

بلدیاتی ادارے

آج کل ملک میں ہر طرف بلدیاتی انتخابات  کا شور ہے۔ ایسے میں پاکستان کے طول و عرض میں لوگوں کو اگر یہ پتہ ہو کہ بلدیاتی ادارے کیا ہوتے ہیں تو ان اداروں کی جڑیں پاکستان میں مضبوط ہوسکتی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے بلدیاتی ادارے کیا ہوتے ہیں اور وہ عوام کو کیا کیا سہولتیں فراہم کرتے ہیں ان پر اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی قلم اُٹھائیں اور میڈیا کے کسی بھی ذریعہ (اخبارات، ویبسائٹس، وغیرہ) سے پاکستان کے لوگوں تک پہنچائیں تاکہ پاکستان کے لوگ ان اداروں کی ملکیت اپنے ہاتھوں میں لیں۔ ظاہر سی بات ہے اس میں وقت لگے گا۔ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جہاں سیاست کو (بطور ادارہ) پنپنے ہی نہیں دیا گیا اور بلدیاتی ادارے سیاست کا بنیادی جز ہیں۔

ملک کے طول و عرض میں کوئ بھی جماعت بلدیات کے الیکشن جیتتی ہے بلدیاتی اداروں کی بنیادی ذمّہ داری میں کوئ تبدیلی نہیں ہوگی۔

یہ دنیا evolve ہو کر آج  جس مقام پر پہنچ گئ ہے اس میں کسی بھی ملک میں حکومت کی تین تہیں ہوتی ہیں:

۱) وفاقی
۲) صوبائی / ریاستی
۳) بلدیاتی

جس طرح پہیہ کی ایجاد ہونے کے بعد اب یہ کہنا فضول ہے کہ پہیّہ دوبارہ ایجاد کیا جائےگا اسی طرح کسی بھی ملک میں حکومت کا نظم کس طرح ہونا چاہیئے اس میں بہت زیادہ تغیّر و تبدّل کی گنجائش نہیں ہے، ہاں یہ ہے کہ اگر کوئ دلیل کے جواب میں بندوق کی زبان میں بات کرے تو اس کا کوئ علاج نہیں ہے۔ اگر تھوڑا سا تاریخی پسِ منظر دیکھیں تو جب مغربی ملکوں میں بادشاہتوں کا وجود ختم ہوا تو جمہوریت کو ایک متبادل کے طور پر لایا گیا اور اس میں مقامی نوعیت کے مسئلوں (سڑکوں کی تعمیر، فراہمیِ و نکاسیِ آب، اسٹریٹ لائٹس، لائبریری، ٹرانسپورٹ (اندرونِ شہر)، رہائشی اور تجارتی عمارتوں کے نقشوں کی منظوری، شہر میں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ۔۔۔اور فہرست طویل ہے) کے حل کے لئے بلدیاتی/ میونسپل کارپوریشن/ لوکل گورنمنٹ/ سٹی گورنمنٹ (غرض آپ اس کو کوئ بھی نام دیں) کا نظام وجود میں لایا گیا۔ اس عمل کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو بالادست طبقے ( یعنی بادشاہ، کلیسا، امراء، لارڈز وغیرہ) کا اپنی (بلا شرکتِ غیرِ)  طاقت میں محکوم (زیرِ دست) طبقہ کو شریک کرنا اور دوسرے حصے میں زیرِ دست طبقہ (یعنی عوام ) کا اُن اختیارات کی تقسیم کرنا۔ ان دونوں حصّوں کی ایک تاریخ ہے اور اُس سے وابستہ لوگوں کی کی جدّوجہد ہے (اس عمل کو ہم مختصراً سول سوسائٹی کی جدّوجہد، civil liberties کی جدّوجہد اور مختلف خانوں میں ڈال سکتے ہیں)۔ طوالت سے بچنے کے لئے آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کا شہریوں کی زندگی میں کیا کردار ہوتا ہے۔

سنہ 2006 سے لے کر 2011 تک کینیڈا کے شہر مِسّی ساگا میں رہائش کے دوران مندرجہ ذیل مشاہدات ہوئے(یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ مغرب میں کسی بھی شہر کے بلدیاتی ادارے کم و بیش ایک جیسی سہولتیں شہریوں کو فراہم کرتے ہیں لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئ شہر دوسروں سے بازی لے جاتا ہے جیسا پاکستان میں کراچی میں نعمت اللّہ خان اور مصطفیٰ کمال دوسرے شہروں کے ناظرین سے بازی لے گئے تھے۔)

مِسّی ساگا 1968 میں ایک قصبہ (ٹائون) کی حیثیت سے قائم کیا گیا اور بعد ازاں 1974 میں اسے ایک شہر کا درجہ دے دیا گیا۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مِسّی ساگا کی آبادی سات لاکھ تیرا ہزار کے لگ بھگ تھی (جو اگر کراچی شہر سے تقابلہ کیا جائے تو کچھ بھی نہیں) اور یہ کینیڈا کا چھٹا بڑا شہر تھا۔ GTA ( یا Greater Toronto Area) میں ٹورنٹو کے بعد مِسّی ساگا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس شہر میں انڈیا،  پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور 2011 کی مردم شماری کے مطابق اردو بولنے والوں کی تعداد 21,895، پنجابی بولنے والوں کی تعداد 15,645 اور تامل بولنے والوں کی تعداد 7200 تھی۔ تامل بولنے والوں سری لنکا کے تامل بھی شمار ہونگے۔ اس شہر کو باقائدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بسایا گیا اور مختلف علاقوں کو مختلف مقاصد کے لئے مخصوص کیا گیا جیسے،

ڈائون ٹائون (Down Town)۔۔۔۔یہ تو لفظ سے ہی واضح ہے، ہر بڑے شہر میں ہوتا ہے
میجر نوڈ (Major Node)۔۔۔ اس میں بڑا مال ہوتا ہے اور بسوں کا بڑا اسٹاپ جہاں سے تمام علاقوں سے/کی طرف بسیں آتی/جاتی ہیں
کمیونٹی نوڈ (Community Node)۔۔۔ اس جگہ چھوٹے مال ہوتے ہیں جن کو Strip Mall بھی کہا جاتا ہے
نیبرہڈ نوڈ (Neighbour hood Node)۔۔۔ یہ تمام رہائشی علاقوں کو کہتے ہیں
کاپوریٹ سینٹر (Corporate Center)۔۔۔ان علاقوں میں اداروں کے صدر دفاتر ہوتے ہیں
ایمپلائمنٹ ایریا (Employment Area)۔۔۔۔۔ یہ علاقے صنعتیں لگانے کے لئے مخصوص کئے جاتے ہیں
مخصوص علاقہ (Special Purpose Area)۔۔۔یہ علاقے کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جیسے مِسّی ساگا میں ایئرپورٹ ہے اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو کا کیمپس ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کینیڈا کے محکمہ شماریات کے مطابق صرف اس شہر کا سالانہ جی ڈی پی 2013 میں تیس ارب ڈالر (کینیڈین) کے لگ بھگ تھا۔ کسی بھی شہر کا بلدیاتی ادارہ شہر کے باسیوں کو مندرجہ ذیل سہولتیں فراہم کرتا ہے

۔۔ جیسا کہ اوپر درج ہے کہ شہر کا پھیلائو ایک منصوبے کے تحت ہوتا ہے، تو شہر کے ماسٹر پلان بنانا اور اس پر عمل درآمد کروانا بلدیاتی ادارے کی ذمّہ داری ہے

۔۔۔بلدیاتی ادارہ کو مالی طور پر خود مختار ہونا چاہیئے، مغرب میں بلدیاتی اداروں کی آمدنی کا بڑا حصہ پراپرٹی ٹیکس سے حاصل ہوتا ہے، اسی طرح اشتہارات اور پارکنگ کی فیس سے بھی


مِسّی ساگا شہر کو گیارہ وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے لئے کونسلر کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو مل کر سٹی کونسل بناتے ہیں۔ سٹی کونسل کا سربراہ میئر ہوتا ہے اور اُس کا انتخاب بھی براہِ راست کیا جاتا ہے۔ جو شہر بڑے ہوتے ہیں اُن کی پولیس سٹی کونسل کے تحت کام کرتی ہے جیسے ٹورونٹو، لیکن مِسّی ساگا میں ایسا نہیں ہے۔ اس علاقے کا بڑا شہر ٹورونٹو ہے جس کی آبادی پچیس سے تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جب اس شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا تو اس شہر کی حدود مقرر کردی گئ اور اُس سے آگے پہلے نئے قصبے آباد لئے گئے اور جب وہ قصبے بھی آبادی میں بڑھنے لگے تو اُن کو شہر کا درجہ دے دیا گیا۔ مِسّی ساگا بھی اُنھی قصبوں میں سے ایک ہے۔ ٹورونٹو کے اطراف میں جو چھوٹے شہر بنے اُن میں اسکابورو (Scarborough )، مارکھم (Markham )، مِسّی ساگا (Mississauga)، ایٹوبِکو (Etobicoke )، برامپٹن (Brampton )، رچمنڈ ہلز (Richmond Hills)۔ ان میں سے جن شہروں کی آبادی میں اضافہ ہوا اُن کی میونپلٹی کی ذمّہ داریاں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ مِسّی ساگا ان شہروں میں تیزی سے پھیلا اور ایک جدید شہر کی صورت اختیار کرگیا۔ لیکن کیا یہ تعمیر و ترقی خود بخود ہوگئ ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ جیسے کراچی کے حوالے سے نعمت اللّہ خان اور مصطفیٰ کمال کا نام دیگر تمام میئر سے الگ لیا جائے گا تو مِسّی ساگا شہر کو بھی ایک شخصیت نے لیڈرشپ فراہم کی اور اُس کا نام ہے ہیزل میک کیلئین (Hazel McCallion)۔ یہ خاتون  1978 میں مِسّی ساگا کی پانچویں میئر کی حیثیت سے منتخب ہوئیں اور 2014 تک مسلسل 36  سال اس شہر کی میئر رہیں۔  اُن کے بارے میں مبصرین کی پیشن گوئ تھی کہ یہ خاتون صرف ایک مدت گزار پائیں گی لیکن اُنھوں نے اپنی کارکردگی سے اپنے مخالفین کے منہ بند کردئیے۔ دوبارہ منتخب ہونے کے لئے انھوں نے کبھی ایلی کشن کمپیئن نہیں چلائ اور کبھی اپنی سیاست کے لئے چندہ وصول نہیں کیا۔ 2014 میں بھی اُنھوں نے اپنی عمر رسیدہ (93 سال) ہونے کے باعث الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے نئ قیادت سامنے آئ۔ 2005 میں ہیزل دنیا کے بہترین میئر میں دوسرے نمبر پر آئیں

۔۔شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی فراہمی:
 کسی بھی شہر میں شہریوں کو ماس ٹرانزٹ کی سہولت فراہم کرنا بلدیاتی ادارے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہی اُس کو چلاتا بھی ہے۔ (پاکستان میں بدقسمتی سے یہ کام وزیرِ اعلیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں جو کہ اُن کا کام نہیں)۔ صرف ٹرانسپورٹ فراہم ہی نہیں کرنا بلکہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اُس میں جدّت لے کر آنا۔ جیسے اگر ہم مِسّی ساگا کا کراچی شہر سے موازنہ کریں تو مِسّی ساگا شہر کی آبادی لگ بھگ سات/آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہوگی اور ابھی سے اس شہر کے لیئے لائٹ ٹرین کا منصوبہ ہے جو 2022 میں کام شروع کردے گا اور کراچی جس کی آبادی دو کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی اُس کے لئے ابھی تک ایسے کسی منصوبے کے آثار نظر نہیں آتے اس کے علاوہ جو بسیں مسافروں کے لئے روزانہ استعمال ہوتی ہیں وہ بنیادی طور پر جانور یا سامان کو لانے لے جانے والے ٹرک ہیں جن کو رشوتیں کھلا کر روٹ کی بسیں بنادیا گیا ہے۔

مِسّی ساگا شہر کا بس کا نظام بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہر اسٹاپ پر جو بس آتی ہے اُس کا نظام الاوقات آویزاں ہوتا ہے اس کے علاوہ پورے بس کے نظام کا نقشہ آویزاں ہوتا ہے تاکہ آپ اپنے سفر کی منصوبہ بندی کرسکیں۔ ہر بس اسٹاپ کے لئے چار نمبر مخصوص کئے گئے ہیں۔ اور ایک فون نمبر اس سروس کے لئے مخصوص کیا گیا ہے جس پر جب کوئ مسافر فون کرتا ہے تو وہ اپنے مطلوبہ بس اسٹاپ کا نمبر بتا کر یہ معلوم کرسکتا ہے کہ اُس بس اسٹاپ پر اگلی بس یا بسیں کتنی دیر میں آئیں گی۔ یہ سہولت خاص طور پر سردیوں میں ایک نعمت ہوتی ہے جب منفی دس یا منفی بیس ڈگری سینٹی گریڈ میں کسی کے لئے چند منٹ کے لئے بھی باہر کہڑا ہونا انتہائ مشکل ہوتا ہے۔ اس بس کے نظام کو پہلے Mississauga Transit کہا جاتا تھا اور اب اس کا نام بدل کر  miWAY رکھ دیا گیا ہے

سڑکوں اور اسٹریٹ لائٹ کا انتظام:

 اس بات کو یقینی بنانا کہ شہر کی تمام سڑکیں  اور لائٹس قابل استعمال حالت میں ہیں بلدیاتی ادارے کی بنیادی ذمّہ داری میں شامل ہے

ٹریفک سگنل کا انتظام: ٹریفک کا انتظام اب ایک باقائدہ سائنس ہے۔ کونسا سگنل کتنی دیر کے لئے کھلا رکھنا ہے اس کے لئے باقائدہ سروے کیا جاتا ہے اور مختلف سگنل کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات پروگرام کئے جاتے ہیں تاکہ ٹریفک کی روانی کو جتنا ممکن ہوسکے برقرار رکھا جاسکے۔ اس کے علاوہ نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رکھنا بلدیاتی ادارے کا کام ہے۔ اسی طرح بعض چوراہے جہاں ٹریفک کا اژدھام بڑھ جاتا ہے وہاں سگنل کے لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ کرنا یا فلائ اوور یا کوئ اور حل تلاش کرنا۔


نکاسی و فراہمیِ آب اور بجلی:
 مِسّی ساگا میں یہ سب انتظام ایک کمپنی کے پاس ہے جس کا نام Enersource ہے۔ ویسے بجلی پیدا کرنا صوبہ کی ذمہ داری ہے لیکن اُس کی ترسیل کے لئے ہر شہر میں کمپنیاں بنائ گئیں ہیں۔

لائبریری:

کسی شہر کی آبادی کے پڑھے لکھے ہونے کا اندازہ اُس کی لائبریریوں کی حالت سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ مِسّی ساگا سمیت کینیڈا کے ہر شہر میں لائبریری (کتب خانوں) کا وسیع جال ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی حالت میں نت نئ جِدّت لائ جاتی ہے تاکہ لوگوں کا کتاب سے رشتہ برقرار رہے۔ مِسّی ساگا شہر میں مرکزی لائبریری کو ملا کر اٹھارہ (18) لائبریریاں ہیں۔ ویسے تو کینیڈا کی دو سرکاری زبانیں ہیں، انگریزی اور فرانسیسی لیکن کینیڈا کو اپنے کثیر الاقوامی ملک ہونے پر فخر ہے اور اس کا اظہار لائبریری میں اس طرح کیا جاتا ہے کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر ہر لائبریری اور مرکزی لائبریری میں انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی کتابوں کے علاوہ دوسری زبانوں کی کتابیں کا بھی ذخیرہ موجود ہے جس میں اردو زبان کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ کل تقریباً بارہ لاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہےاور چوبیس (24) زبانوں میں کتابیں دستیاب ہیں۔ ہر لائبریری میں وائ فائ کے ذریعے انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ ایک وقت میں پچاس تک چیزیں لائبریری سے لی جاسکتی ہیں جن میں وڈیو سی ڈی، ڈی وی ڈی شامل ہیں۔ کتابیں تقریباً تین ہفتے تک لی جاسکتی ہیں اور اُس کے بعد بھی اگر چاہیں تو فون پر یا انٹر نیٹ کے ذریعے اُن کو renew اُس صورت میں کروایا جاسکتا ہے اگر کسی اور نے اُس پر hold نہ لگوایا ہوا ہو۔ جو لوگ ملازمت کی تلاش میں ہوتے ہیں اُن کے لئے ایک بہت اچھا ریسورس سینٹر ہے۔ اگر آپ کے پاس اپنا لیپ ٹاپ موجود ہے تو آپ اپنے لائبریری کارڈ اور پن کوڈ کے ذریعے لائبریری کے وائ فائ کو استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر لائبریری میں کچھ کمپیوٹر موجود ہوتے ہیں جن کی مدد سے لائبریری کا کیٹلاگ سرچ کیا جاسکتا ہے اور کچھ کمپیوٹر پر ویب برائوزنگ کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ سب کو موقع ملے ہر کوئ ایک گھنٹہ ہی ایک وقت میں کمپیوٹر استعمال کرسکتا ہے تاکہ دوسرے شخص کو بھی موقع ملے۔ کمپیوٹر آپ گھر بیٹھے آن لائن بھی ریزرو کروا سکتے ہیں۔  ہر لائبریری میں چھوٹے بچوں کے لئے علیحدہ سیکشن ہوتا ہے تاکہ بچے کھیل ہی کھیل میں پڑھائ کی طرف راغب ہو سکیں۔ لائبریری کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہوسکے اس غرض سے اس کی عمارت یا تو اسکول کے ساتھ بنائ جاتی ہے یا اس سے قریب۔ لائبریری میں باقائدگی سے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ لوگ لائبریری سے جڑے رہیں، ان پروگراموں کا باقائدہ کیلینڈر شایع کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ، آرٹس اور حساب (Mathematics) سے رغبت دلانے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کا نام Makers Mississauga رکھا گیا ہے۔اس پروگرام کےتحت درج ذیل سرگرمیاں رکھی گئیں ہیں

تھری ڈی پرنٹنگ ( 3D printing): جس کے تحت 3D printer لائبریریوں کے لئے خریدے جارہے ہیں اور لوگ اُن کے ذریعے مختلف نمونے بنارہے ہیں، ساتھ ساتھ لوگوں کی رہنمائ کا بھی انتظام موجود ہے

سلائ (Sewing): سلائ کی جدید مشینیں اور ماہر حضرات کی زیرِ نگرانی لوگوں کو تربیت دی جارہی ہے۔

لیگو (Lego): جو کہ بچّوں اور بڑوں میں یکساں مشہور ہے اور کسی کی بھی تخلیقی صلاحیت بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔ اسی میں روبوٹکس Robotics کی سرگرمیاں  بھی ہیں۔

ڈیجیٹل فلمسازی (Digital Film making) : اس میں دو پروگرام Green Screen Program اور Stop Motion Program قابل ذکر ہیں

ایلیکٹرانکس (Electronics ) : اس میں جو پروگرام رکھے گئے ہیں اُن کا نام  Makey Makey، Squishy Circuits، Drawdio، Snap Circuits رکھا گیا ہے اور ان کے تحت سرگرمیاں رکھی گئیں ہیں۔


(لائبریریوں کے بارے میں اتنا تفصیل سے لکھنے کا مقصد پاکستان کے لوگوں کو اس بات کی آگاہی دینا ہےکہ مغرب کے لوگوں میں علم کی کیا اہمیت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے علم کی بدولت ہی ترقّی کی ہے)

کمیونٹی / اسپورٹس سینٹر:

بلدیاتی اداروں کی ایک ذمّہ داری لوگوں کے لئے کمیونٹی / اسپورٹس  سینٹر بنانا اور اُن میں مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کرنا ہوتا ہے۔ مِسّی ساگا میں اس طرح کے بارہ (12) مراکز ہیں جن میں سوئمنگ، باسکٹ بال، اسکیٹنگ کی سہولیات ہوتی ہیں، اس کے علاوہ دعوتیں منعقد کرنے کے لئے ہال ہوتے ہیں جو تقریبات کے لئے قیمتاً دستیاب ہوتے ہیں۔ اسپورٹس کی مختلف سرگرمیوں کے لئے بامعاوظہ تربیت کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ مسلمان بھی عید اور دیگر مواقع پر اپنی تقریبات کمیونٹی سینٹر میں کرتے ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران سمر کیمپس منعقد کئے جاتے ہیں۔ بعض سہولتوں کے لئے ممبرشپ درکار ہوتی ہے۔ اسپورٹس کے مقابلے کرائے جاتے ہیں۔ آرٹس، ڈانس، اور ڈرامہ کی ورکشاپ کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ بزرگوں کے مل بیٹھنے کے لئے بھی ہال ہوتے ہیں۔


فضلے کا ٹھکانہ لگانا اور ری سائیکلنگ

اس کام کے لئے کچھ شہروں کو ملا کر ریجن بتادیئے گئے ہیں اور یہ کام پرائیوٹائز کردیا گیا ہے۔ مِسّی ساگا جس ریجن میں ہے اُس کو Peel ریجن کا نام دیا گیا ہے۔ ہفتے میں اک دفعہ گاڑی ہر گھر سے کچرا اُٹھاتی ہے اور یہ ہر شہری کی ذمّہ داری ہے کہ اپنے گھر کا کچرا اپنے گھر کے سامنے رکھے۔ اس کے علاوہ کاغز اور بوتلوں  کے علیحدہ ڈبے شہریوں کو فراہم کئے جاتے ہیں جن میں کاغز اور بوتلوں کو الگ کرکے ڈالنا شہری کی ذمہ داری ہوتی ہے

اس تحریر کا بنیادی مقصد لوگوں کو اس بات کی آگاہی فراہم کرنا ہے کہ دنیا میں شہر کس طرح چلائے جارہے ہیں اور اگر پاکستان کو دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو پاکستان کے شہروں کو بھی دنیا میں رائج طریقوں سے چلانا پڑے گا۔ وزیرِ اعلیٰ کا کام نہیں ہے کہ شہر کے میئر کے اختیارات بھی اپنے پاس رکھ لے اور تمام وسائل پر قبضہ کرکے بیٹھ جائے۔

لوگوں کے سوچنے کی باتیں:

اس بات سے قطع نظر کہ انتخابات کے نتیجے میں کون جیت کر آرہا ہے اور کس شہر میں کس پارٹی کی حکومت بن رہی ہے یہ نظام لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے اس لئے لوگ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں انھیں چاہیئے کہ اپنی توجہ مسئلوں پر مرکوز کریں:

موجودہ بلدیاتی نظام کی شکل و صورت کیا ہے ( چاروں صوبوں میں )
وہ کون کون سے اختیارات ہیں جو موجودہ دنیا میں بلدیاتی اداروں کو حاصل ہیں اور پاکستان میں ان اداروں کو نہیں دئیے جارہے۔ ان اختیارات کے حصول کے لئے دبائو ڈالنا چاہئے

(باقی پھر کبھی)

Saturday, April 30, 2011

Major General A O Mitha

Unlikely beginnings: a soldier's life

"Bombay sy GHQ tak"
Aboobaker Osman Mitha 


The only striking thing while taking this book that I had never heard this name of Pakistan Army. Second Surprising thing that this person belong to Memon community. I have not seen Memon community people except business or some jobs. Infact he is founder of SSG (Special Service Group) in Pakistan Army. 





A very out spoken and liberal person of his time. Born in 1923 to a  well known memon family he joined Indian Army of that time. His family at that time was so resourceful that British Viceroy Lord Wellington paid visit to his family reception in Bombay. I wrote him out spoken as he clearly admitted that during British rule his family (Father and Grand father) was agent to British Government and did every thing they want from him even if British rulers wanted  riots in Bombay his grand father had gangs on his payroll to ignite riots. He served in Indian army until partition of India(1947). Upon partition he gave his written consent to be part of Indian Army. But when witnessed the partition riot he opted for Pakistan. Witnessed the partition riots and explained that as trains came to lahore station from India to Pakistan filled with dead  bodies of Muslims similarly trains arrived in Delhi filled with dead bodies of  Hindus and Sikhs. He also explained that in British rule army officers were out spoken and can speak to his officer if they had any difference. In his opinion It was General Zia ul Haq who started "chaploosi" culture in Pakistan Army that now junior office cant speak in front of their officer if they have any difference. In his career he took stand on different issues against British officer without fear.










He mentioned about the Pakistan initial days when they started their offices in go downs. Beign so rich in Bombay he never claimed a single property in Pakistan as a migrant. He started his life in government provided quarter in Pakistan.He married to a christian lady Indu. Mrs Indu Mitha was niece of an Indian Army officer Major General A A 'Jick' Rudra. She was a daughter of a Christian professor who was from lahore but who moved to India after partition. His marriage was strongly opposed by her parents but since it was like a love marriage so Indu flown to Karachi from India and they did civil court marriage. Later this marriage was accepted by her parents.





Since General Mitha had experience in "Stay behind" force in Indian Army so he was selected by chief of army Ayub Khan to build a "SSG" (Special Service Group). His selection was objected by General Yahya Khan as whole of his (General Mitha) family was in India at that time and her wife was an Indian and her whole family was not only in India but also in the Indian Army. So he was posed to be a threat to Pakistan security and several time it was the talk of the town that he would be moving to India or he shared secret files with India. Any way despite all this Ayub Khan selected him to found SSG. He not only founded SSG but also command the group. He praised Ayub Khan for selecting him on merit because he was the only one in Pakistan Army at that time who did para trooping and other necessary exercises required for SSG in British Army. He then also command Pakistan Military Academy (PMA). At both places he invent new ways of training and led by himself. During his days young cadets of recruits did not know when and where he would show up during training exercises. He practically participated in sports with his juniors. For establishing SSG he got training in USA by CIA and in UK




He was also posted in East Pakistan. During all his days in East Pakistan he wrote during all his visit he was accompanied by his armed junior Bangali officer whereas he did not carry arm by himself. According to him his attitude with his juniors was always on merit so he did not find any difficulty in East Pakistan. He did mentioned that attitude of some army officers toward Bengali's  were not right or they treated them as slaves which led to the creation of Bangladesh. But one thing he mentioned that when Bengali got chance to take revenge they also crossed every limit. He wrote about a documentary movie made by PTV at that time about the situation and which contains evidences about the atrocities  done by  "Mukti Bahni" towards West Pakistani civilians. That documentary was never shown on PTV and may be in the archive. According to him if that documentary would have shown then we would be able to come out of this one sided propaganda that Pakistan Army and West Pakistanis  did atrocities to Bangalis. He also criticized Major General (R) Sahibzada Yaqoob Khan for his resignation at that time. According to him it was his time to act rather resign. He also mentioned about some "topi drama" did by General Niazi at that time that. He took journalists and all media person with him to show them fake encounter with Mukti Bahini. Infact there were no Mukti Bahini there in those area and he did fake drama in front of press with no arrest, no casualties. Any way he did his duties in East Pakistan and returened. He was made Qarter Master General logistic. So when there was a war in 1971 he was logistics in charge. After the Dhaka fall when Zulfiqar Ali Bhutto took charge as chief Martial law administrator he was retired along with some other general. He was shocked for that as he was not directly involved in the operations of the war. He described this as the enmity against him by General Gul Hassan. He wrote that Zulfiqar Ali Bhutto was misinformed about him that he is against him (Bhutto). He was portrayed as a closer to General Yahya and against Bhutto. Where as according to Gen. Mitha he never involved in politics except when he as to act as a Martial Law Administrator. And in that he limited himself to the administrator issues and never created relations with any politician. Any way he was retired. But before explaining what happened to him after his retirement it is important to describe one event which is very important in our history but which is not known to many people.




In September 1970 one day Pakistani Military Attache in Jordan reported in GHQ that a incident is happened there in which Brigadier Zia ul Haq is involved and he should be court martial. Zia ul Haq was a counter insurgent specialist and was sent on deputation to Jordan in late 1968 to train their forces how to deal with insurgency of Palestinians. Due to Israeli occupation there were thousands of Palestinian refugee in Jordan. They were continuing their activities from Jordan. Tariq Ali, an internationally fame Pakistani writer describe this event in his book (The Duel: Pakistan on the flight path of American Power) in these words. " The monarchy had become extremely unpopular after the Israeli triumph, and its overthrow would have provide the Palestinians with a state. It was not to be. In September 1970, Zia let the Jordanian troops to crush the Palestinian uprising. Between five and seven thousand Palestinians were killed. General Moshe Dayan noted that King Hussein "Killed more Palestinians in eleven days than Israel could kill in twenty years". The month became known as Black September. Zia was awarded the highest Jordanian honor and returned home in triumph. Soon afterward he was promoted and posted as corp commander in Kharian, a military city in the Punjab. According to friends, the Black September operation was one aspect of his past that he would never discuss, but  clearly it was treated as a routine operation even by Bhutto, who publicly defended the Palestine Liberation Organization"

Zia act was clearly against the army discipline as he was giving training to the Jordanian troops and he should not be involved in any thing practically there. He had to be court martial. An act of indiscipline was ignored and nation suffered for 10 years of his martial law.

Any way General Mitha was retired. He described his retirement a very strange event.  He along with some other general of Pakistan Army were retired by Zulfiqar Ali Bhutto on the advise of General Gul Hassan (Then Pakistan Army chief). This retirement was for incident of 1971. General Mitha claimed he was not direct operational incharge of any action in the 1971 war. He mentioned that Gul Hassan has projected him as  an opponent of Bhutto in Pakistan Army. He faced various difficulties from authorities afterwards. Its important to note that he wrote most of his book about his army life. In almost 630 pages he explained his army life. Infact he lived until 1999 after being retired in 1972 or 73. So for the rest of his almost 28 years he used only 20-30 pages. His wife added some pages in the last and mentioned that his every venture after his retirement was spoiled by government agencies. Bhutto in his era created FSF (federal security force). Many of the retired SSG personal who were trained by Gen. Mitha  joined that force and created difficulties for him on government order. He was perhaps very few general of Pakistan who faced financial difficulties after his retirement as his all medals and perks were taken away from him and he faced financial problems until his death.




He had three daughters.  He died in Dec 1999. Since we dont have culture that muslims and christian burried in a same graveyard  together so in remembrance of his wife he asked to be buried in his farm so his wife can be buried with him later. As he was the founder of SSG group so SSG guard came to pay him tribute