میرے خیال میں لفظ “فلسفہ” سے میرا پہلا واسطہ حسینہ معین کے ڈرامہ “ان کہی” میں پڑا تھا۔ جس کے ایک سین میں بدر خلیل کی دوست سلیم ناصر سے پوچھتی ہے، “فلسفہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے”، تو سلیم ناصر جس نے اپنے پڑھاکو بھانجے جبران سے فلسفہ کی کچھ لائنیں رٹی ہوئی تھیں بولنے لگتا ہے لیکن وہ خاتون کاؤنٹر سوالات کرکے سلیم ناصر کو گڑبڑا دیتی ہیں اور سلیم ناصر زِچ ہو کر کہتا ہے مجھے نہیں آتا یہ فلسفہ ولسفہ۔ اُس کے بعد شاید زندگی بھر فلسفہ کا تزکرہ قابلِ لائق نہیں ہوا۔ ہاں سُقراط، بُقراط، اور ارسطو کے نام گاہے بگاہے سنتا رہا۔ ہمارے زمانہ طالبِ علمی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جو اچھے اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں وہ سائنس پڑھتے ہیں اُس کے بعد لوگ کامرس میں جاتے ہیں اور جو سب سے نالائق اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں وہ آرٹس میں جاتے ہیں۔ فلسفہ کا کوئی تزکرہ ہی نہیں تھا۔
خیر حال ہی میں پرویز ہود بھائی کی زبانی یہ شکایت سُنی کہ پاکستان میں طلبا کو فلسفہ نہیں پڑھایا جاتا۔ جس کی وجہ سے پاکستانیوں میں critical thinking نہیں جنم لیتی۔ اور پاکستانی معاشرہ میں سوال پوچھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یوٹیوب پر ایک لڑکے سید مُزمّل شاہ کو سُننے کا موقع ملا۔ اِس نے اپنی گفتگو میں فلسفہ کا اتنا حوالہ دیا کہ میں اس طرف توجّہ دینے پر مجبور ہوگیا۔ اُس میں بھی اُس نے ایک فلسفی نطشے کا بہت تزکرہ کیا۔میں جب پچھلے سال پاکستان گیا تو فلسفہ کے اوپر نطشے کی کافی کتابیں(انگریزی میں) اور غزالی کی “تہافتہ الفلاسفہ (اُردو میں)، Will Durant کی کتاب “The history of Civilization” کا اُردو ترجمہ کی تین جلدیں( اس کتاب کی انگریزی میں کُل گیارہ جلدیں ہیں جن میں سے 4 جلدوں کا اُردو میں ترجمہ ہوچکا ہے جن میں سے تین میرے پاس ہیں اور چوتھی میری مامی آتے ہوئے لے آئی ہیں)
لیکن اُردو میں فلسفہ کی کتابیں پڑھنا بہت مُشکل کام ہے۔ اصطلاحات کو سمجھنا بہت مُشکل ہے۔ میں نے اب تک جو کچھ پڑھا ہے اُس کا نچوڑ کچھ یہ ہے: خلافت کا مرکز جب بغداد منتقل ہوا اور خلیفہ کے دربار میں ایرانیوں کا اثر و نفوز بڑھا تو عبّاسی خلفاء میں علم کی طلب بڑھی۔ اور یونان سے فلسفہ کی کتابیں منگوائیں گئیں اور عربی میں اُن کے تراجم کیے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے فلسفہ میں دلچسپی لینی شروع کی اور ابِنِ سینا اور الفارابی دو ایسے فلسفی تھے جو ارسطو کی سوچ سے بہت متاثر تھے۔ غزالی جو خود بھی فلسفی تھے اِن دونوں کے کچھ فلسفیانہ خیالات کے خلاف تھے۔ اُنھوں نے ان دونوں کی اور کچھ اور فلسفیوں کی کچھ فکروں کی مخالفت کی۔ اپنی کتاب تہافتہ الفلاسفہ میں غزالی نے فلسفیوں کے 20 کے قریب نظریات پر تنقید کی ہے جن میں سے 17 کو اُنھوں نے دین میں اضافہ قُرار دیا جبکہ 3 نظریات کے ماننے والوں کو اُنھوں نے کافر اور واجِبُ القتل قرار دیا۔
اِبنِ رُشد نے غزالی کی کتاب کا تفصیلی جواب دیا ہے۔ لیکن غزالی کی کتاب پہلے مذہبی حلقوں میں مشہور ہوئی پھر عوام میں پھر یہ حکومتی پالیسی کا حصہ بن گئی۔ نتیجتاً free thinking کی مسلمان معاشرے میں حوصلہ شکنی ہوئی۔ چونکہ کچھ فلسفی، ریاضی کی مدد سے بھی اپنے نظریات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے جس کی غزالی نے مخالفت کی تھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ریاضی کے مضمون میں بھی مسلمانوں کی دلچسپی ختم ہوتی چلی گئی۔
تہافتہ الفلاسفہ کو اُردو میں پڑھنا کافی مُشکل ثابت ہو رہا تھا اس لیے اس کتاب کے انگریزی ترجمہ کی تلاش شروع کی جو کچھ کوششوں کے بعد آن لائن مل گیا۔
یہ ترجمہ مائیکل ای مارمورا نے کیا ہے۔ مائیکل ای مارمورا یروشلم میں 11 نومبر 1929 کو پیدا ہوئے۔ 1953 میں اُنھوں نے وسکونسن یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ایم اے اور پی ایچ ڈی دونوں حاصل کرنے کے لئے یونیورسٹی آف مشی گن چلے گئے۔ وہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں پروفیسر ایمریٹس رہے جہاں انہوں نے 1959 سے 1995 تک پڑھایا اور جہاں انہوں نے دو مرتبہ ڈیپارٹمنٹ آف مڈل ایسٹ اور اسلامی علوم کی صدارت کی۔مائیکل ای مارمورا نے کئی اور عربی کتابوں کے انگریزی میں ترجمے کیے ہیں۔ اس ترجمے کو برگھم ینگ یونیورسٹی پریس، Utah نے چھاپا ہے۔
میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں کُھلے مباحثوں کی اجازت دی جائے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ مختلف فلسفیانہ سوچ رکھنے والے اپنی اپنی فکر کو فروغ دینے کے لیے یوٹیوب وڈیو بنا رہے ہیں۔ جہاں جہاں ان لوگوں کے خیالات ٹکرانے لگتے ہیں یہ اُس نکتہ کو لے کر ایک دوسرے کے خلاف وڈیو بنانے لگ جاتے ہیں۔ نتیجتاً پولرائیزیشن بڑھ رہی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایک بڑا آڈیٹوریم ہو جس میں مختلف فلسفیانہ خیالات رکھنے والے لوگوں کو بلایا جائے۔ اُن کو سُنا جائے۔ پروگرام کو لائیو اسٹریم کیا جائے۔ تاکہ پاکستان میں لوگ فلسفہ میں دلچسپی لیں اور پاکستانیوں کی critical thinking کے سفر کا آغاز ہو۔